پاکستان کے ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں جیولن تھرو کے مقابلوں میں نیا اولمپک ریکارڈ قائم کرتے ہوئے نہ صرف طلائی تمغہ حاصل کر لیا ہے بلکہ پاکستانی قوم کا ان عالمی کھیلوں میں میڈل کے حصول کا تین دہائیوں سے جاری انتظار بھی بالاخر ختم ہو گیا ہے۔
ارشد نے یہ کارنامہ 92.97 میٹر فاصلے پر نیزہ پھینک کر سرانجام دیا جو ان کے کریئر کی بہترین کارکردگی بھی ہے۔
جمعرات کی شب سٹیڈ ڈی فرانس میں ہونے والے فائنل مقابلے میں ارشد کی پہلی تھرو فاؤل قرار دی گئی تاہم دوسری تھرو نے 2008 میں قائم کیا گیا اولمپک ریکارڈ توڑ دیا۔
یہ ارشد کے کریئر کی سب سے بڑی جبکہ دنیا میں اب تک پھینکی جانے والی چھٹی سب سے طویل جیولن تھرو تھی۔ارشد نے اس مقابلے میں اپنی آخری تھرو بھی 90 میٹر سے زیادہ فاصلے پر پھینکی۔
ہ دوسرا موقع ہے کہ ارشد نے اپنے کریئر میں 90 میٹر سے زیادہ فاصلے پر تھروز کی ہیں۔ ماضی میں انھوں نے 2022 میں برمنگھم میں دولتِ مشترکہ کھیلوں میں 90.18 میٹر فاصلے پر جیولن پھینک کر طلائی تمغہ جیتا تھا۔
جیولن کے فائنل مقابلے میں چاندی کا تمغہ ارشد کے دیرینہ حریف اور دفاعی چیمپیئن انڈیا کے نیرج چوپڑا نے حاصل کیا جنھوں نے 89.45 میٹر کی تھرو کی۔ یہ رواں برس ان کی بہترین تھرو تھی۔ کانسی کے تمغے کے حقدار گرینیڈا کے اینڈرسن پیٹرز قرار پائے۔
پیرس اولمپکس میں کوالیفیکیشن راؤنڈ میں انڈین ایتھلیٹ نیرج چوپڑا اپنی 89.34 میٹر کی تھرو کی بدولت پہلے نمبر پر رہے تھے جبکہ ارشد ندیم 86.59 میٹر کی تھرو کے ساتھ چوتھی پوزیشن پر تھے۔
انفرادی گولڈ میڈل جیتنے والے پہلے پاکستانی
وہ اولمپکس کی تاریخ میں انفرادی مقابلوں میں طلائی تمغہ حاصل کرنے والے پہلے جبکہ کوئی بھی میڈل جیتنے والے تیسرے پاکستانی ہیں۔
ان سے قبل 1960 میں پہلوان محمد بشیر نے روم اور 1988 میں باکسر حسین شاہ نے سیول اولمپکس میں کانسی کے تمغے جیتے تھے۔
ارشد کی اس کارکردگی کی بدولت پاکستان اولمپکس میں 1992 کے بعد پہلی مرتبہ کوئی تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوا ہے جبکہ طلائی تمغے کے لیے پاکستان کا انتظار اس سے بھی کہیں طویل تھا کیونکہ پاکستان نے اولمپکس میں اپنا آخری طلائی تمغہ 1984 کے لاس اینجلس اولمپکس میں ہاکی کے مقابلوں میں جیتا تھا۔
ارشد کی اس کامیابی کے بعد اولمپکس کی تاریخ میں پاکستان کے کل تمغوں کی تعداد 11 ہو گئی ہے جن میں سونے اور کانسی کے چار، چار جبکہ چاندی کے تین تمغے شامل ہیں۔ ان 11 میں سے آٹھ تمغے ہاکی جبکہ باقی تین جیولن تھرو، ریسلنگ اور باکسنگ میں جیتے گئے ہیں۔
فائنل میں جگہ بنانے کے بعد ایک ویڈیو بیان میں ارشد ندیم نے عوام سے دعاؤں کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آپ کی دعاؤں سے میں نے کوالیفیکیشن راؤنڈ میں پہلی ہی تھرو میں فائنل کے لیے کولیفائی کر لیا۔‘
’مزید میرے لیے دعا کریں تاکہ میں مزید بہتر پرفارم کروں اور پاکستان کے لیے میڈل جیتوں۔
دل خوش کر دیا شہزادے‘
ارشد ندیم نے جیولن تھرو کے فائنل میں جیسے ہی نیا اولمپک ریکارڈ اپنے نام کیا تو گویا پاکستانیوں کو یقین سا ہو گیا کہ ان کا تین دہائیوں کا انتظار اب ختم ہونے کو ہے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر ارشد ندیم کا نام ٹاپ ٹرینڈ بن گیا اور انھیں جہاں مبارکباد دینے کا سلسلہ شروع ہوا وہیں صارفین کی بڑی تعداد بار بار ان کے اس تھرو کی ویڈیو شیئر کرنے لگی جس میں وہ 92.97 میٹر کے ساتھ نیا عالمی ریکارڈ بناتے ہیں۔
پاکستان خواتین کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان ثنا میر نے لکھا کہ ’ارشد نے سر دھڑ کی بازی لگائی ہے اور ان کی تھرو طلائی تمغے کے لیے کافی ہے۔‘ کرکٹ مبصر اور ٹی وی میزبان زینب عباس کا کہنا تھا کہ ’کیا ہی تھرو ہے یہ۔‘
پاکستان کے فاسٹ بولر شعیب اختر نے اپنے مخصوص انداز میں ارشد ندیم کی ریکارڈ تھرو پر انھیں ’شہزادہ‘ قرار دے دیا جبکہ پروفیسر عادل نجم نے لکھا کہ ’دل خوش کر دیا شہزادے۔‘
ایسے میں پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے ایکس ہینڈل سے ایک ٹویٹ سامنے آیا جس میں موجود ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستانی کرکٹر پیرس اولمپک میں بیتابی سے ارشد ندیم کی تھرو کا انتطار کر رہے ہوتے ہیں اور وہ جیسے ہی ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کرتے ہیں تو سب کھلاڑی جشن منانا شروع کر دیتے ہیں۔